سندھ

فوجداری مقدمات میں تفتیش غیر معیاری ہوتی ہے، چیف جسٹس

کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم مقننہ نہیں اس لئے ہم قانون سازی نہیں کرسکتے اور جمہوریت میں اہم ہے ہم کسی کام میں دخل اندازی نہ کریں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مقننہ نہیں اس لئے ہم قانون سازی نہیں کرسکتے، قانون بنانا اور اصلاحات کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ انصاف میں تاخیر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لوگوں کو ملک میں سستا انصاف ملنا چاہیئے، ہمیں بخوبی اندازہ ہے زیر التوا کیس کے فیصلے کے وسائل نہیں، ہم ایک کوشش کر سکتے ہیں کہ قانونی دائرے اور موجودہ ججز کے ساتھ ہر جگہ قانون کے مطابق جلد کام کریں۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے بروقت فیصلے سے اعلیٰ عدلیہ پر بوجھ کم پڑے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دنیا میں لوگ عدالت میں جانے کے ڈر سے مسئلہ خود حل کرتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملہ عدالت لیجانے پر لوگ خوش ہوتے ہیں کہ عدالت میں دیکھ لوں گا۔ جلد انصاف کی فراہمی کے لیے مجھے سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آیا ہے، پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا ہے اور ماڈل کورٹس بنائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جیل میں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہے اور لوگ برسوں پڑے رہتے ہیں، سپریم کورٹ میں معاملہ آنے پر پتا چلتا ہے وہ بے گناہ ہیں، کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرارہا لیکن بدقسمتی سےفوجداری مقدمات میں تفتیش غیر معیاری ہوتی ہے۔ استغاثہ کی ذمہ داری جدید طریقوں کو استعمال کرنا ہے لیکن کیس میں استغاثہ نہ ہونے کی وجہ سے ملزم آزاد ہوجاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ کئی ایکڑ کی اراضی نمبر دار کی زبان پر منتقل ہوجاتی ہے، کروڑوں روپے کی پراپرٹی کی ملکیت زبانی طور پر بدل دی جاتی ہے۔ ہم کس دورمیں جی رہے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ زبانی حساب کتاب کسے بند کرنا ہے۔ ایک عام جج صاحب کے پاس 150 کیسز کی لسٹ ہوتی ہے، اس لحاظ سے اسے ہر کیس میں ڈھائی سے 3 منٹ دینا ہوتے ہیں۔ اس میں انہیں سماعت بھی کرنی ہے اور فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close