دنیا

یوسی کوہن نے ایران کی جوہری دستاویزات کی چوری کے متعلق تفصیلات

 اُنھوں نے ایران کے ایک جوہری پلانٹ کی تباہی اور اس کے ایک جوہری سائنسدان کے قتل میں اسرائیلی ہاتھ ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے

کوہن گذشتہ ہفتے موساد کے سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

اُنھوں نے اسرائیل کے چینل 12 پر ایک دستاویزی پروگرام میں صحافی ایلانا ڈایان سے بات کی جو جمعرات کی رات کو نشر کیا گیا تھا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے سنہ 2015 کے اواخر میں کوہن کو موساد کا سربراہ بنایا تھا۔ اُنھوں نے لندن کی ایک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سنہ 1982 میں موساد میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اُنھوں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پورے کریئر کے دوران اُن کے پاس ‘سینکڑوں’ پاسپورٹ رہے ہیں۔

انٹرویو میں سب سے چشم کشا لمحات وہ تھے جب وہ ایران کی جوہری دستاویزات کی چوری پر بات کر رہے تھے۔

بنیامین نیتن یاہو نے سنہ 2018 میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان فائلوں کے بارے میں بتایا تھا۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے ایسا کرنے کی معلومات خفیہ طور پر حاصل کر لی ہیں۔

ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

کوہن نے انٹرویو میں کہا کہ اُنھیں اس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے میں دو سال لگے۔ صحافی ایلانا ڈایا نے کہا کہ اس میں ایرانی سرزمین پر کُل 20 موساد کے ایجنٹ شامل تھے جن میں سے کوئی بھی اسرائیلی شہری نہیں تھا۔

ویسے تو موساد کے سابق سربراہان کے لیے انٹرویوز دینا یا پریس کے علم میں موجود معاملات پر اپنا نکتہ نظر بیان کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے مگر یوسی کوہن کے تبصرے اس لیے حیران کُن ہیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ تفصیل بیان کی گئی ہے۔
اسی لیے ٹائمز آف اسرائیل نے اس انٹرویو کو حیران کُن اور چشم کشا قرار دیا ہے۔

کسی تھرلر ناول کی طرح کوہن نے بتایا کہ کیسے ایجنٹوں نے تجوریاں توڑیں، ٹنوں کے حساب سے ایرانی جوہری دستاویزات چرائیں اور

پیچھا کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں سے بچتے ہوئے انھیں ملک سے باہر پہنچا دیا۔

یہ بھی پرھیں: ایٹمی گھر میں ہونے والے پراسرار دھماکے کے پیچھے اسرائیل ہے،ایرانی حکام

یہ انٹرویو نپا تلا تھا اور یہ اسرائیل کے ملٹری سینسرز سے ضرور گزارا ہوگا۔ اس کی ٹائمنگ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی پر بات چیت شروع ہونے لگی ہے اور اس حوالے سے پیش رفت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

اس سے اسرائیل کے دشمنوں کو یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ موساد دشمن کی سرحدوں کے اندر گہرائی تک گھس کر کام کرنے پر آمادہ ہے۔
ایران نے کہا تھا کہ جولائی 2020 میں یورینیم افزودگی کے ایک پلانٹ میں سبوتاژ کی ایک کارروائی سے آگ لگی ہے۔

رواں سال اپریل میں نئے ساز و سامان کی رونمائی کے ایک دن بعد ہی حکام نے کہا کہ اسے سبوتاژ کر دیا گیا ہے اور اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔

ایران نے اس معاملے پر اسرائیل کو ‘جوہری دہشتگردی’ کا مرتکب قرار دیا تھا۔

یوسی کوہن نے انٹرویو کے دوران صحافی ایلینا ڈایان سے کہا کہ وہ اس سائٹ کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور وہ اُنھیں اس ہال تک بھی لے جا سکتے ہیں جہاں ‘گھومنے والے سینٹری فیوجز نصب ہیں۔’ پھر اُنھوں نے کہا: ‘وہ جو گھوما کرتے تھے۔ اب وہ ہال ویسا نہیں ہے جیسا پہلے لگتا تھا۔

اُنھوں نے ایران کے اعلیٰ ترین جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے بارے میں بھی بات کی جنھیں گذشتہ نومبر تہران کے باہر ایک سڑک پر قتل کر دیا گیا تھا۔
ایران نے عوامی طور پر اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔

موساد کے سابق سربراہ نے ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی مگر اُنھوں نے کہا کہ یہ سائنسدان ‘کئی برس سے’ ہدف تھے اور اُن کی سائنسی معلومات سے موساد کو خدشات لاحق تھے۔
‘اگر کسی شخص میں اسرائیل کے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت ہے تو اس شخص کا وجود مٹنا ضروری ہے۔
اگر کوئی اپنا شعبہ تبدیل کرنے اور ہمیں مزید نقصان نہ پہنچانے پر تیار ہو’ تو اس کی جان بخشی کی جا سکتی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close